آخر ڈلیوری آپریشن / بڑا آپریشن / سیزیرین سیکشن ہی کیوں؟؟؟؟

کیا ہم نے کبھی اس بارے میں سنجیدگی سے سوچا ہے؟؟؟؟

نہیں شاید ہم میں سے کسی نے بھی اس بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچا کیونکہ ہم تو صرف بڑے سے بڑے ڈاکٹرز سے اپنا علاج کروانا ہی جانتے ہیں۔ لیکن کبھی یہ نہیں سوچا کہ وہ بڑے سے بڑے ڈاکٹر صرف اور صرف آپ کی جان کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔

معاشرے میں عورت کو ایک خاص مقام حاصل ہے مادہ پرستی اور نفسانفسی کے اس دور میں عورتیں کئی ایک مسائل سے دو چار ہیں جن میں سرِ فہرست زچگی کے وقت آپریشن کروانا ہے۔ اور ایک خاص طبقے میں فیشن ایبل علاج بن کر رہ گیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ولادت کے وقت آپریشن کروانا تو بہت دُور کی بات ہے دردِزہ کے لیے چند روپے کی میڈیسن خریدنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوتا ۔ آج کل ولادت کے جتنے بھی کیسز ہو رہے ہیں ان میں زیادہ تر آپریشن سے ہو رہے ہیں۔

ڈلیوری آپریشن کے ذمہ دار صرف ڈاکٹر صاحبان ہی نہیں بلکہ وہ مائیں بھی ہیں جو دردِزہ “جو کہ ایک قدرتی عمل ہے” برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔

ڈلیوری آپریشن (سیزیرین) کی تاریخ

ڈلیوری آپریشن کی تاریخ بہت پُرانی اور انتہائی دلچسپ ہے ۔ مُلکِ رُوم میں “جولیٹ سیزر” نامی ایک شہنشاہ گُزرا ہے ولادت کے وقت اس کی والدہ ماجدہ دردِ زہ سے پریشان اور نڈھال ہوئے جا رہی تھی ولادت کا راستہ تنگ ہونے کے باعث پیدائش میں مشکلات دکھائی دے رہی تھیں لہذا اس وقت کے شاہی طبیبوں نے فیصلہ کیا کہ زچہ کا پیٹ چاک کر کے بچے کی پیدائش کرا دی جائے سو انہوں نے زچہ کا پیٹ چاک کر کے جولیٹ سیزر کی پیدائش کرائی۔

اس طرح اس آپریشن کا نام سیزیرین رکھا  گیا۔

اس طرح ولادت کے وقت آپریشن کا طریقہ رائج ہوا جو اس وقت پوری دُنیا میں اپنے قدم بہت تیزی سے مضبوط کر رہا ہے اور اگر یہی حال رہا تو پھر عین ممکن ہے کہ آئندہ آنے والے وقت  میں ڈلیوری صرف اور صرف آپریشن کے ذریعے ہی ممکن ہوا کرےگی۔

زچگی کے وقت جو درد ہوتا ہے پہلی ولادت اور بعد کی ولادت میں درد کا وقت مُختلف ہوتا ہے۔پہلے بچے کی ولادت کے وقت زچگی کا درد کم و بیش اٹھارہ گھنٹوں تک ہوتا ہےاور بعد کی پیدائشوں میں اس کی میعاد چار یا چھ گھنٹے اور بعض کیسز میں اس سے بھی کم ہو جاتی ہے۔

ولادت میں مُشکلات پیدا کرنے میں حاملہ عورتوں کا بھی اہم کردار ہوتا ہے ۔ پریگننسی کے شروع ہی سے قدرتی علامات کے ظہور سے عورتیں پریشان ہو جاتی ہیں اور احتیاط کرنے کے بجائے مُختلف قسم کی ادویات استعمال کرتی ہیں۔ جو کہ درست نہیں ہوتا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس عمل میں قدرت خداوندی سے عورت کے اندرونی اعضاء اپنا فعل ٹھیک طرح سے سر انجام دیتے ہیں جس سے غذا کے جزوِ بدن ہونے کا عمل تیز ہو جاتا ہے جس سے جنین کو اس کی ضرورت کے مطابق غذا ملتی رہتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں حاملہ عورتوں کو ضرورت سے زیادہ غذائیں کھلائی جاتی ہیں تا کہ حاملہ کی صحت برقرار اور طبیعت ہشاش بشاش رہے۔ بعض عورتیں تو مقوی غذائیں اور وٹامن بھی استعمال کرتی ہیں غذا کی زیادتی رحم میں نشودنما پانے والے جنین کو نارمل حالت سے بڑا بنا دیتی ہے جو کہ آگے چل کر زچگی کے وقت مُشکلات کا باعث بنتا ہے اور بعض اوقات اسی وجہ سے آپریشن کی نوبت بھی آتی ہے۔ پریگننسی کے دوران مخصوص غذائیں استعمال میں لانی چاہیئں مثلاََسبزیوں اور پھلوں پر مُشتمل غذائیں حاملہ کے لیے ایک بہترین ٹانک ثابت ہوتی ہیں۔ دودھ پریگننسی کے دوران مسلسل استعمال کرنا چاہیے جبکہ مہینے میں کبھی کبھارگوشت کھانا بھی بہتر ہوتا ہے ۔ نارمل غذائیں کھانے سے جنین کا سائز بھی نارمل رہتا ہے ۔ ڈلیوری کے وقت بچے کا وزن چھ سے سات پاونڈہونا چاہیے تاکہ زچگی کے وقت مشکلات پیش نہ آئیں۔ یہ تبھی ممکن ہو گا جب دوران پریگننسی غذائیں معتدل طریقے سے استعمال کی جائیں۔

ڈلیوری آپریشن کی کچھ عام وجوہات:

  • جنین کا ماں کے رحم میں اُلٹ جانا۔
  • جنین کی حرکت نامناسب ہونا۔
  • زچہ کا کام کاج کرنے کے بجائے ضرورت سے زیادہ آرام کرنا۔
  • زچہ کا بے جا ادویات استعمال کرنا۔
    زچہ کا ضروت سے زیادہ کھانا۔جس کی وجہ سے بچہ کا سائز زیادہ بڑا ہو جاتا ہے۔
  • آنول(پلیسینٹا ) کا پیدائش کے راستے کے آگے آ جانا۔
  • بچے کو پلیسینٹا کے ذریعے جانے والی خوراک کا رُک جانا۔
  • اس کے علاوہ کسی قسم کی پیچیدگی کی صورت میں آخری حل کے طور پر آپریشن کروا سکتے ہیں۔

اُمید کرتا ہوںمیرے یہ الفاظ پڑھنے کے بعد بہت سے لوگ اس انفارمیشن سے مستفید ہوں گے۔

اس میں سے بہت سے مسائل کا ہم بذریعہ ادویات علاج کر سکتے ہیں۔

  • جیسے پیدائش کے وقت بچہ کا اُلٹا ہونا۔
  • بچے کو جانے والی خوراک کا راستہ رُک جانا۔
  • پیدائش کا راستہ تنگ ہونا یا پیدائش کے وقت مُکمل طور پر نہ کُھلنا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔

ان تمام امراض کی ادویات اور اِن کا شافی علاج موجود ہے۔

Share

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
WhatsApp
Telegram